favorite
close
bekwtrust.org /urdu
خوش آمدید…
 

اولیا ءکرام جن کے شان میں قرآن میں اﷲ تعالیٰ فر ماتا ہے:

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
(سورة یونس . پارہ ۱۱. آیت۶۲)
معنی اَﷲ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ غم
 
حق تعالیٰ نے زمانہء حا ل میں سرِ زمینِ ہند کو ایک محمودالصفات ہستی سے نوازا ہے قبلہءوقت سیدالکاملین ، سلطان العارفین کا اسمِ مبارک حضرت بابا احسان اﷲ خان وارثی ہے۔ آپ کی ذاتِ پُر نور سے روحانیت کے جو کمالات منعکس ہوئے ہیں اسے بیان کرنے سے قلم قاصر ہے ایسی ہی ہستیوں کے متعلق آنحضور ﷺ نے یہ فرمایا ہے:
عُلَمَاءُ اُمَّتِی کَاَنْبِيَاءِ بَنِی اِسْرَائِيْل
ترجمہ : میری امت کے علماء (مراد علمائے باطن ، اولیااﷲ) بنی اسرائیل کے انبیاءکے مثل ہیں
 
ابتدائی حالات :
 
یہ وارثی آفتاب، ۲۴ ستمبر ۱۹۲۵ ؁ءبروز جمعرات بوقتِ عشاء،گورکھپور ( یوپی)کے موضع’ بلوا ‘ میں حضرت عبداﷲ کے گھر ، بی بی جمیلہ النساءکے دامنِ عفیف میں طلوع ہوا ۔آپ مادرزاد ولی اور مطلوبِ حق تھے ۔ یکسوئی، خاموشی و استغراق آپ کی فطرت تھی اور بچپن ہی سے آپ سے وہ حیرت انگیز باتیں ظاہر ہوتیں جو کاملین میں بھی کم دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ حصولِ تعلیم کے بعد تلاشِ معاش میں آپ ۱۹۴۶ ءمیں بمبئی تشریف لائے اور بمبئی میونسپل کارپوریشن میں پیشئہ در س و تدریس سے منسلک ہوگئے اور یہیں سکونت اختیار کی۔
آپ ازلی عاشقِ ِ رسول تھے ۔
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ ٱللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
ترجمہ: اﷲ کے رسول کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے
مذکورہ آیت آپ کے روشن سینہ پاک پر گویا کندہ تھی اس لئے آپ اپنے ہر عمل کو نمونہ حسنہ بنانے کی فکر میں کوشاں رہتے ۔ نوعمری سے پابندئی شرع کا وہ عالم تھا کہ بیعت ہونے کے بعد آپ کے مرشد بھی آپ کو مولوی صاحب کہہ کر مخاطب فر ماتے تھے۔ آپ کو نماز سے اس قدر شغف تھا کہ چوبیس گھنٹوں با وضو ہوتے اور پنچ گانہ کے علاوہ تہجد، چاشت ا ور اشراک تک کی کوئی نماز کبھی قضا نہیں ہوئی!
 
سِلسِلۂ وارثیہ میں بیعت ھونا :
 
آپ ازلی ولی تھے مگر بظاہر آپ کی حیات میں راہِ طریقت کی ابتدا ۱۹۶۳ ؁ء میں وارثی سلسلہ کی ایک باکمال ہستی حضرت اﷲ مان شاہ سلطان پوری کی بیعت سے ہوئی۔حضرت اﷲ مان شاہ وارثی ،حضرت صدیق شاہ سے اور صدیق شاہ ،سرکار وارث ِ پاک سے بیعت تھے۔ اس طرح دو کڑیوں سے آپ کا سلسلہ ،بانئی سلسلہ حضرت وارث علی شاہ سے ملتا ہے !!

اول ملاقات میں مر شد سے بیعت ہوتے وقت ہی ، آپ نے اپنے مرشد کو خانہ’ کعبہ میں محوِ نماز دیکھا !مقامِ غور ہے کہ آپ کےدل میں عشقِ الہی کی کیسی تڑپ ہوگی کہ سالوں کے مجاہدات سے نہ حاصل ہونے والا مشاہدہ آپ نے پہلی ہی ساعت میں حاصل کر لیا ! بیعت ہونے کے بعد نہایت مختصر عرصہ میں آپ نے راہِ سلوک کی تمام منازل اعلیٰ کامیابی کے ساتھ طے کئیں اور تاجِ کامل ولایت سے سرفراز ہوئے ۔ قدرت نے آپ کو کل نعمت ہائے الہیہ سے نواز کر خلقت کی بھلائی کے لئے دنیا میں ظاہرفرمادیااور آپ نے بھی حسبِ حکمِ ربی اپنی تمام حیات انسان گری و خلق کی بہبودی میں صرف کی!
 
دکن کا علاقہ :
 
آپ کے مرشد نے دکن کے علاقہ کو روحانیت سے اجاگر کرنے کی ذمہ داری آپ کو سونپی تھی۔ علاقہ دکن تہذیبی ،تعلیمی اورمعاشی اعتبار سے پسماندہ علاقہ ہے جہاں تعصب جادو ٹونا طلسم بھی بہت عام تھا ۔ حسبِ حکم ِ پیرآپ اس علاقہ میں قریہ قریہ جا کر روحانیت کی تبلیغ فرماتے رہے حتیٰ کہ ؁۱۹۷۸ ءمیں قدتاً حکم ملا ” تبلیغ ِ الہیٰ کے لئے آبادی سے دور اونچائی( پہاڑی) پر جگہ خریدو “ اس حکم ِ ربی ّ پر آپ نے تحصیل مدن پلی میں قدری روڈ پر ٹماٹر منڈی کے سامنے ایک ٹیکری پر جگہ خریدی جہاں اب ” بابا احسان اﷲ خان ٹرسٹ اور آپ کی آخری آرام گاہ ( مزار) بھی ہے۔ (آپ نے ۸ جنوری ۱۹۹۶ء؁کو پردہ فر ما لیا ہے ) یہاں شعبان کی سولہ تاریخ کو بعد مغرب ”قل شریف (آپ کے وصال کا دن۔ عرسِ حقیقی) منایا جاتا ہے نیز ماہ جنوری میں ۲۲ تا ۲۵ تاریخ تک سالانہ عرس ہو تا ہے ۔ عرس میں محفلِ سماع کا اہتمام ہوتا ہے اور ۲۵ تاریخ کی صبح آپ کے ست رنگی پرچم نیز سر کارِ دوعالم کے سبز پرچم اور وارثِ پاک کے پیلے پرچم کی کشائی ہوتی ہے ۔آپ کے پرچم کے سات رنگ اور ان کی ترتیب منجانب قدرت آپ کو بتائی گئی ہے ۔معلوم ہوتا ہے آپ کو ان تمام رنگوں ( مراد صفات) پر کامل قدرت حاصل ہے ۔

یقیناً آپ کی ذات نورُ علیٰ نور ، صبغتہ اﷲ سے مکمل رنگین تھی اور آپ کی ذات سے محیرالعقل مشاہدات کا صدور ، آپ میں صفتِ تنزیہی کا مظہر ہیں ! ان مشاہدات پر غور کرنے سے سمجھ میں بس یہی آتا ہے کہ یہی وہ تجلیٰ اولیٰ یا نورِ محمدی ہے جو پیشانئی آدم میں گوہر بن کر بیٹھا تو آدم کو مسجود ِ ملائک کا شرف بخشا ! اسی نور کا جب کامل ظہورذات آنحضور ﷺ میں ہوا تو آپ کو رحمت للعالمین اور امام المرسلین کا خطاب عطا کیا اور یہی نور جب مرشدِ برحق کے روشن دلِ پاک کی زینت بنا تو آپ کو محبوب ِ رحمتہ اللعٰلمین ا ور قاسمِ خزانہءالہیہ بنایا !
آپ نے مریدین کے قلب کو نور سے مزین فر ماکر یقین کی اس نعمت سے نوازا ہے کہ اﷲ نہ کعبہ میں ہے اور نہ کلیسا میں ہے بلکہ ہر انسان کے دل میں موجود ہے اور اولیاکرام اﷲ کے مظہر ہیں ۔آپ علم ،عقل اور عشق کا ایک عملی پیکر رہے ہیں اور ان بہترین صلاحیتوں کے ساتھ آپ کے پاس دلِ بینا اور نگاہِ دل نواز بھی تھی ۔ ان حسین خوبیوں کے امتزاج نے سیرت سازی اور آدم گری کے کام کو بہت اعلیٰ پیمانے پر وسیع کیا۔
 
آپ کی تعلیمات :
 
آپ کی تعلیمات عین صوفی تعلیما ت ہیں کہ انسان کو زندگی میں ا پنے نفس کا تزکیہ ( قلب کی صفائی) کر کے روح کا عروج حاصل کر نا یعنی اﷲ کا تقرب پانا چاہئے۔ جسے عرفِ عام میں جنت کہتے ہیں ! یہی حیاتِ انسانی کا مقصد ہے۔اس سلسلہ میں آپ نے بالخصوص یہ تعلیم دی ہے کہ ”روزانہ شب کو دن بھر کے قول و افعال ا جائزہ لیں ۔افعالِ حسنہ کے لئے اﷲ کا شکر اداکریں تاکہ اﷲ خوش ہو اور مزید اچھے کام کی توفیق ملے اور افعالِ مذمومہ ( غلط کام ) کے لئے صدق توبہ طلب کریںتاکہ آئیندہ ایسے کار سے محفوظ ہوں۔اپنے ذمہ جو کام ہوں ان کا حق پوری طرح اداکریں ۔ مخلوق سے حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔شرک ،تکبر ، تعصب ، لالچ اور غیبت سے پر ہیز کریں اور دوسروں میں عیب تلاش کر نے کے بجائے خود اپنے آپ کو دیکھیں اور اپنی اصلاح کریں “ آپ نے اپنی اصلاح پر ہمیشہ زور دیا ۔اس سے مقصد اپنی ذات کا عروج پانا ہے۔

آپ کا پیغام ہے ’محبت عین ایمان ہے‘ کیونکہ محبت ہی باعثِ تخلیقِ کائنات ہے۔ محبت ہی سے دلوں کو تسخیر کیا جا سکتا ہے اور خدائی بھی ملتی ہے آپ نے فر ما یا ہے “ ہمارے یہاں دین و دنیا دونوں ہیں “غرض مشغولیٰ حق کے ساتھ ، اﷲ نے آپ کو انسا نوں کے غموں کا بوجھ اٹھانے کی طاقت و ہمت بھی عطا کی تھی اور آپ نے نہ صرف دوسروں کے غموں کو راحت میں بدل دیا بلکہ اپنے دن و رات ، انساں کو انسان بنانے میں صرف کر دئے ۔
 
اقوالِ بابا جان :
 
اپنے مریدوں کی فلاح و بہبودی اور اصلاح کے لئے ، باباجان نے بہت سے خطبے دیئے ہیں اور اچھے انسان بننے کےآسان طریقے دکھائے ہیں۔ چند اقوالوں کو الگ صفحے پر دیا گیا ہے۔
ان اقوالوں کو پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
 
آپ کا نظامِ اصلاحِ انساں:
 
آپ کی عظمت کا راز آپ کے نظامِ اصلاح میں ہے جس نے انسان کو انسانیت کا سبق پڑھایا اور مردہ دلوں کو حیاتِ نو بخشی۔ آپ نے تا حیات آدم گری کو کارِ نبوت سمجھ کر انجام دیا ۔ آپ کے نظامِ اصلاح و تربیت کے بنیادی اصو ل میں یہ باتیں خاص تھیں ۔
۱؍ زبان سے تلقین کرنے کی بجائے عملاً مثالی کردار پیش کرنا چاہئے ۔جو اخلاقی اصول عمل میں ظاہر ہوتا ہے وہ دوسروں کو متاثر کرنے کی طاقت زیادہ رکھتا ہے اور براہِ راست ہدایت سود مند نہیں ہوتی اس سے نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
مثلاً محفل میں اگرکبھی کسی کو ہدایت فر ماتے تو اس طرح ارشاد ہوتا کہ جسے ہدایت کرنا مقصودہوتا وہ سمجھ لیتا اور محفل میں اس کی پردہ داری بھی رہتی ۔
۲؍ نصیحت قصہ، یا مثال تمثیل کے پردہ میں ہونی چاہئے ۔
۳؍ اصلاح کا کام خطرہ کی منزل سے پہلے شروع کرنا چاہئے ۔
 
آپ نے فر مایا ہے سنت اﷲ ۱نسانوں میں فرق نہیں کرتی ۔ہوا پانی اور روشنی سب کے لئے ایک جیسی ہے انسانوں کی پیدائش اور موت کا طریق ایک ہی جیسا ہے اس لئے انسان کو بھی اﷲ کے نظام سے ہم آہنگی پیدا کر نی چاہئے ورنہ تخلیقِ انساں کا مقصد یعنی اﷲ کا قرب نہیں مل سکتاہے ۔ انسان خلیفتہ اﷲ فی الا رض کا اسی وقت مستحق ہو سکتا ہے جب وہ عملاً الخلق عیال اﷲ کا قائل ہو جائے یعنی یہ یقین کرے کہ تمام خلق اﷲ کا کنبہ ہے ۔ آپ نے حیات کے تقریباً پچاس سال انسان کی ذہنی اور عملی سطح بلند کرنے اور انسانی قلوب کو رشتئہ الفت میں پرونے میں صرف کئے !! آپ نے ”ما و شما“ ( ہمارا تمہارا) میں کبھی تفریق نہیں کی۔

آپ کے مشن کا مقصد انسانوں کو آپس میں ملانا۔اﷲ، پرکاش (نور) کے معنی سمجھانا،مذہبی تعصب ختم کرنا ، بھائی چارگی اور حب ا لوطنی کا جذبہ پیدا کرنا ہے ۔ انسان کے دل میں جب اﷲ کی محبت سرایت کر جاتی ہے تو اﷲ کی مخلوق سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے اور اس میں رواداری اور اتحاد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں اولیاکرام نے یہی طریقہ اختیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے آستانوں پر ہر قوم و ملت کے لوگ آتے اور فیض پاتے ہیں۔ آپ نے خلقت میں فیض و رشد ہدایت عام کرنے کے لئے ہندوستان کی مخلتف ریاستوں میں خانقاہیں بنائیں ہیں جہاں ذات پات اور قوم و نسل کی قید سے ماوراءہزارہا مخلوقِ خدا فیض اٹھا رہی ہے ۔ان خانقاہوں کے پتے کونٹیک پیج میں درج ہیں۔

کرامات کے تعلق سے آپ نے فر مایا ہے ” کرامت اﷲ کا کھلونا ہے جسے دے کر اﷲ کھیلتا ہے اس لئے کرامت پر نہیں جانا چا ہئے“ ۔ آپ نے فر مایا ہے ” اتباعِ رسول میں کامل ہونا بڑی کرامت بلکہ کرامت سے بڑھ کر ہے“۔ البتہ مریدین کی اصلاح کی خاطر روشن ضمیری کا اظہار ہوا ہے ! آپ نے فر مایا ہے ” کوئی مرید یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس سے نہیں ملا ہوں “۔ دوسرے لفظوں میں آپ نے ہر مرید کے دل پر یہ ثبت کر دیا ہے کہ جہاں بندہ وہیں اﷲ ہے یا جہاں مرید ہے وہیں پیر ہے اور یقین کی یہ دولت عطا کی ہے کہ اﷲ یا پیر ہر دل میں موجود ہے “
 
آپ کی ذاتِ پاک پر لکھی گئی کتب :
 
کسی بزرگ سے فیض پانے کے لئے اس ذات سے عقیدت ہونا چاہئے اور عقیدت کے لئے اس ہستی کی عظمت کے متعلق معلومات ہونا ضروری ہے ۔ کسی نے صحیح کہا ہے” معلومات عقیدت کی سرخیل ہوتی ہے“۔ اسی نکتہ کے تحت ، آپ کی حیاتِ طیبہ ، تعلیمات اور معرفت ِ حق کے تعلق سے کئی کتب لکھی گئی ہیں مثلاً "اسرارِ الٰہی" ، ”کامیاب معلم اور روحانی رہنما “ ”فاعلِ حقیقی “ ، ”نذرانہ عقیدت“ اور ” آئینہ رب “ ! ۔آئینہ رب آپ کی مکمل سوانح حیات ہے جس میں آپ کے ظاہرہ حالات ، سیرتِ مبارکہ اور کئی کرامات کا بھی تذکرہ ہے ۔ یہ کتب آپ کے جانشین و سجادہ نشین حضرت نصیب اﷲ خان وارثی( آپ کے صاحبزادے) سے بمبئی میں ذاتی مکان یا مذکورہ ٹرسٹ پر بھی مل سکتی ہیں !